Java EE Developer at Quarrio, Data Analyst, Student of Computer and Data Sciences. Also an amateur writer.
Wednesday, January 27, 2016
Tuesday, January 26, 2016
Why. . . ??
کیوں ۔ ۔ ۔ ؟
ﮨﻢ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ , ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﮮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ , ﺑﺲ ﮨﻢ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﮯ, ﮨﻢ ﺍﻧﮭﯽ ﺩﻻﺋﻞ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎﺗﮯ ۔ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺑﺎﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﺭﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻔﻆ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟
Thursday, January 21, 2016
Education and Students
تعلیم اور طالب علم
جاپان کی ہوکائدو ریلوے کمپنی نے تین برس پہلے کامی تیراکی ریلوے سٹیشن کے لیے اپنی سروس غیر منافع بخش ہونے کی بنا پر بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
جاپان کی ہوکائدو ریلوے کمپنی نے تین برس پہلے کامی تیراکی ریلوے سٹیشن کے لیے اپنی سروس غیر منافع بخش ہونے کی بنا پر بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
مگر پھر یہ فیصلہ ملتوی کر دیا گیا کیونکہ اس سٹیشن سے ایک بچی اسکول جاتی آتی ہے۔ اب ایک ٹرین صبح سات بج کے پانچ منٹ پر صرف اس کم سن مسافر کے لیے آتی ہے اور پھر شام پانج بجے اسے واپس لاتی ہے۔
اس بچی کا تعلیمی سال مارچ میں مکمل ہو جائے گا اور 26 مارچ کے بعد کامی تیراکی ریلوے اسٹیشن کے لیے ہوکائدو ریلوے کی ٹرین سروس بھی بند ہو جائے گی۔
اتنی مشکل سے پالتی ہیں کچھ قومیں اپنے طلبہ کو۔۔۔
(شاید جاپان جیسے ممالک کو کبھی ضربِ عضب کی ضرورت نہ پڑے)
وسعت اللہ خان {BBC}
Monday, January 18, 2016
Why am I laughing too much . . . ?
لوگ پوچھتے ہیں کہ میں اتنا ہنستا کیوں ہوں۔ ۔ ۔ ؟
"کبھی کبھی انسان اندر سے اتنا ٹوٹ جاتا هے کہ رونے کی بجاۓ هنسنا شروع کر دیتا هے" :(
Farz
"فرض"
اڈے پہ بس کا انتظار کرتے ہوئے ایک باریش شخص نے سلام کیا اور کہا
'دس روپے مل جائیں گے، بہت سخت مجبوری میں ہوں۔ ۔ ۔ '
میں نے کچھ سوچے بغیرجیب میں ہاتھ ڈالا اور جو نوٹ ہاتھ میں آیا، اسے دے دیا(دس روپے سے بہت زیادہ کا تھا)۔ ۔ ۔ ساتھ کھڑے دوست نے کہا،
"بھائی کیوں پیسے ضائع کرتے ہو۔ ۔ ۔ ؟؟ یہ لوگ مستحق تو نہیں ہوتے، ہر کسی سے یونہی مانگتے ہیں،کیا تم نے تحقیق کی کہ آیا اسے واقعی ضروت ہے یا نہیں ؟ یہ تو اللہ کی دی ہوئی دولت کی ناقدری ہے کہ ہر کس و ناکس کے حوالے کردی جائے اور وہ بھی اتنے زیادہ۔ ۔ ۔ ؟؟؟"
میں نے بڑی خندہ پیشانی سے اس کی تنقید سنی اور اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا،
"یار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی مانگنے والے کو کچھ دیتے ہوئے تحقیق فرماتے تھے کہ آیا یہ مستحق/ضرورت مند ہے یا نہیں ۔ ۔ ۔ ؟ اور ہم بھی کہاں مستحق ہیں اُس سب کے جو اللہ نے ہمیں بخشا ہے۔ ۔ ۔ ؟ اور رہی یہ بات کہ وہ مستحق تھا یا نہیں، اللہ اور اس کا معاملہ ہے۔ اس نے مجبوری کا اظہار کیا اور میں نے اللہ کا بندہ جانتے ہوئے اس کی مدد کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔ میں نے بس اپنا فرض ادا کیا۔
'دس روپے مل جائیں گے، بہت سخت مجبوری میں ہوں۔ ۔ ۔ '
میں نے کچھ سوچے بغیرجیب میں ہاتھ ڈالا اور جو نوٹ ہاتھ میں آیا، اسے دے دیا(دس روپے سے بہت زیادہ کا تھا)۔ ۔ ۔ ساتھ کھڑے دوست نے کہا،
"بھائی کیوں پیسے ضائع کرتے ہو۔ ۔ ۔ ؟؟ یہ لوگ مستحق تو نہیں ہوتے، ہر کسی سے یونہی مانگتے ہیں،کیا تم نے تحقیق کی کہ آیا اسے واقعی ضروت ہے یا نہیں ؟ یہ تو اللہ کی دی ہوئی دولت کی ناقدری ہے کہ ہر کس و ناکس کے حوالے کردی جائے اور وہ بھی اتنے زیادہ۔ ۔ ۔ ؟؟؟"
میں نے بڑی خندہ پیشانی سے اس کی تنقید سنی اور اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا،
"یار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی مانگنے والے کو کچھ دیتے ہوئے تحقیق فرماتے تھے کہ آیا یہ مستحق/ضرورت مند ہے یا نہیں ۔ ۔ ۔ ؟ اور ہم بھی کہاں مستحق ہیں اُس سب کے جو اللہ نے ہمیں بخشا ہے۔ ۔ ۔ ؟ اور رہی یہ بات کہ وہ مستحق تھا یا نہیں، اللہ اور اس کا معاملہ ہے۔ اس نے مجبوری کا اظہار کیا اور میں نے اللہ کا بندہ جانتے ہوئے اس کی مدد کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔ میں نے بس اپنا فرض ادا کیا۔
Muhabbat
"مُحبت"
آج دنیا بھری پڑی ہے، محبت کے دعوے، محبت کی رسمیں، محبت کے وعدے، محبت کے فتنے اور محبت کی باتوں سے۔ مگر کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ کیا محبت کا کوئی وجود بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ واقعی کہیں پائی بھی جاتی ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی محبوب کے لئے محبت تیاگ دے؟ چھوڑ دے اپنی مرضی اور مان لے جو محبوب چاہتا ہے۔ چل پڑے اس راہ پر جہاں محبوب موجود ہے۔
محبت کی تعریف کیا ہو؟ رقیب کون ہو؟ مثال کیا ہو؟
مجھے نہیں لگتا کہ اب محبت کی کوئی خالص قسم دنیا میں باقی بچی ہے۔ انسانوں میں تو کم از کم نہیں، اور محبت کی تعریف تو شاید ممکن بھی نہیں۔ یہ تو محبت ہے جو انسان کو ڈیفائن کرتی ہے نا کہ انسان محبت کو۔
آپ یقیناً میری باتوں سے اختلاف کر رہے ہوں گے، اور پتہ نہیں کون کون سی مثالیں آپ کے ذہن میں گردش کر رہی ہوں گی۔ مگر کیا ہم ان مثالوں کو محبت کی کسوٹی پر پرکھ پائیں گے؟ محبت چھوڑ دیتی ہے، محبت روند دیتی ہے، محبت جلا ڈالتی ہے، محبت مار دیتی ہے اور اسے کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کیا ہوا۔ محبت جلا بخشتی ہے۔ نم آنکھوں سے آغاز لینے والی محبت کی معراج بندگی ہے۔ ایک چُپ ہے جو تکتی رہتی ہے کہ کب دروازہ کھلے، کب دیدار ہو، کب وہ پوچھیں، کب وہ نام لیں، کب وہ خوش ہوجائیں، کب وہ مان جائیں اور کب وہ کہہ دیں کہ جا راضی ہوا۔
محبت کی ضد نفرت تھوڑا ہی ہے۔ نفرت تو ایک حیوانی جذبہ ہے۔ یہ حسد کی ماں ہے۔ انسانوں میں بھلا اِس کا کیا کام؟ محبت کی ضد تو آزادی ہے۔ محبت میں آدمی قید ہی تو ہوتا ہے۔ جو محبوب چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے، جہاں چاہے وہاں حاضری دینی ہی پڑتی ہے۔ نہ اپنی مرضی چلے نہ خواہش بلکہ اِن کا الٹ ہی کرنا پڑتا ہے۔ محبّت میں آنکھیں ترجمہ کرتی ہیں، معنی دل پہناتا ہے اور ذہن و گمان کی کسک کو وجود بخشتا ہے۔
محبت میں سب سے بڑا رقیب نفس ہے۔ یہ نہیں ملنے دیتا محبوب سے اور انسان نادانی میں اِس سے ہی محبت کر بیٹھتا ہے پھر جو چاہے آجائے جیت نفس کی ہی ہوتی ہے۔
ماں باپ محبت کرتے ہیں اپنی اولادوں سے۔
جی ٹھیک کہا آپ نے، کبھی کرتے ہوں گے یا شاید وقتی طور پر۔ ماں باپ آپ کے پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں۔ آپکو کھلاتے پلاتے ہیں۔ آپ کا نام رکھتے ہیں، اچھے بُرے میں خیال رکھتے ہیں۔ مگر جب آپ بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنے ہر اچھے کرم کا حساب چاہیئے ہوتا ہے۔ ایک گھر میں ایک ہی والدین کی چار اولادیں۔ جو پیسہ کمائے، وہ پیارا، اس کی بیوی بھی اور بچے بھی اور جو کسی قابل نہ ہو پائے اسکی عزت گھر کے نوکر سے بھی گئی۔ غصّہ آئے تو عاق کردیں، گھر سے نکال دیں۔ اور بھلا یہ کیسی محبت کہ دنیا بنانے کا سامان کردیا مگر اِسی اولاد کی آخرت کی کوئی فکر نہیں؟ کیا فرق رہ گیا بچے پالنے میں اور فیکڑی لگانے میں؟
جو کام بدلے کی نیت سے کیا جائے بھلا وہ بھی محبت میں شمار ہوسکتا ہے؟
حکمرانوں کو اپنی عوام سے محبت ہے۔ جی خوب کہا! جس ملک میں غریب کے بچے کچرے کے ڈھیر پر رزق کے لئے کتوں سے لڑیں وہاں پوری صداقت سے آپکی بات کا یقین ہو ہی جاتا ہے۔ جس ملک میں گناہ و ثواب، نیکی و بد، سزا و جزا کا گمان تک مرگیا ہو وہاں ایسے جملے بولنا تہذیب کی عصمت دری کے برابر ہیں۔
اجی چھوڑئیے یہ باتیں، بیوی آخر شوہر سے محبت کرتی ہی ہے اسی لئے تو اپنا میکہ چھوڑ کے چلی آتی ہے۔ جی بھائی، صحیح کہا آپ نے۔ سالوں کی رفاقتوں کے بعد ایک جملہ غلط نکل جائے، ایک دن بُرا گزر جائے، آمدنی کم ہو جائے، بیماری آجائے، توجہ کہیں اور لگ جائے۔ یہی بیوی کہتی ہے کہ میں نے آج تک سکھ کی کوئی گھڑی نہ دیکھی۔ بچے اٹھائے اور یہ جا وہ جا۔ اب شوہر بے چارہ مناتا پھرے۔ یہی حال خاوند حضرات کا ہے۔ حسن زائل ہوجائے، بیماری آجائے یا بات میں سختی ہوجائے تو وہ اِسے چھوڑ اوروں کی تمنا کریں۔ پا سکیں یا نہیں، تمنائیں تو روز مچلتی ہیں۔ تُف ہے ایسی محبت پر۔ محبوب کے سامنے کسی اور کا خیال بھی آجائے تو یہ محبت میں شرک ہے اور یہاں ایسے بھی کہ گھنٹوں محبوب کے سامنے کھڑے اور بیٹھے دلوں میں کسی اور کے خیال سجائے بیٹھے ہیں اور پھر دعویٰ محبت کا۔ واہ بھئی واہ۔ کیا معصومیت ہے۔
چلیں یہ تو مانیں گے کہ لڑکے کو لڑکی سے محبت ہوسکتی ہے یا یہ بھی نہیں۔ یہ بھی اچھی کہی۔ رات رات بھر کے نائٹ پیکجز، گھنٹوں باتیں، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں، زندگی نبھانے کے وعدے، مگر شادی ہوجائے تو؟ اب یہی نائٹ پیکجز، وعدے اور قسمیں کہیں اور؟ کیا آپکو یقین ہے کہ یہ محبت ہی تھی یا کوئی جسمانی طلب؟ آج کل کی محبتوں کا نشہ تو 6 ماہ میں ہی اُتر جاتا ہے۔
چلیں، آپ تو کوئی مولوی صاحب لگتے ہیں، اللہ کے لئے تو بندہ محبت کرتا ہی ہے۔ جی صحیح کہا آپ نے۔ لوگ پتہ نہیں بندوں سے اللہ کے لئے محبت کا دعوٰی کیسے کرلیتے ہیں مجھے تو آج تک اللہ سے اللہ کے لئے محبت نہ ہوسکی اور سونے پہ سہاگہ، بندوں سے اللہ کے لئے ناراض بھی ہوجاتے ہیں، قطع تعلق بھی کر لیتے ہیں۔ اگر اللہ نے کہہ دیا کہ جس سے تم تمام عمر میرے نام پر ناراض رہے اسے تو میں نے بخش دیا تھا تو پھر؟ مجھے لگتا ہے کہ محبت صرف یک طرفہ ہوتی ہے۔ دو طرفہ تو بزنس ہوتا ہے۔
اور جو بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے، اس کا کیا؟ جی، وہ تو اچھی بات ہے کرنی بھی چاہئیے۔ اللہ جلّ جلالہُ کا حق بنتا ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ محبت وہ خوشبو ہے جو چھپائے نہیں چھپتی۔ یہ آنکھوں، چہروں اور رویوں میں نظر آنے لگتی ہے۔ دلوں پر راج کرتی ہے، ذہنوں میں گونجتی ہے اور شخصیت کو نکھار دیتی ہے تو پھر وہ محبت جو ہم اللہ سے کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ آنکھوں میں کیوں نہیں چمکتی، نہ چہروں پر دمکتی ہے، نہ سانسوں میں دہکتی ہے، نہ دلوں پر راج کرتی ہے، نہ خوشبو پھیلاتی ہے، نہ شخصیت میں بہار لاتی ہے، نہ راتوں کو رُلاتی ہے، نہ لہجوں میں سلگتی ہے، نہ طبیعت میں مچلتی ہے، نہ نیندوں سے اٹھاتی ہے، نہ سوتوں کو جگاتی ہے، نہ ہی اعمال بدلتی ہے، نہ ہی سر چڑھ کے بولتی ہے، نہ ہی کہیں رکھ چھوڑتی ہے ، نہ ہی ہجرت کراتی ہے، نہ ہی آس دلاتی ہے، نہ ہی رب سے ملاتی ہے۔ ایسی خالی خولی بےاثر محبت کو بھلا کون محبت مانے؟
مجھے تو نظر نہیں آسکی آپ کی یہ محبت، اگر آپ کے پاس کوئی اور مثال یا ثبوت ہو تو پیش کریں۔
جہاں تک رہی اپنی بات، میں تو محبت کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہوں اس کی بارگاہ میں، جو تمنّا دیکھ کے مراد بر لاتا ہے۔ کیا پتہ کب اِس بہروپیئے کو اصل کردے۔
محبت کی تعریف کیا ہو؟ رقیب کون ہو؟ مثال کیا ہو؟
مجھے نہیں لگتا کہ اب محبت کی کوئی خالص قسم دنیا میں باقی بچی ہے۔ انسانوں میں تو کم از کم نہیں، اور محبت کی تعریف تو شاید ممکن بھی نہیں۔ یہ تو محبت ہے جو انسان کو ڈیفائن کرتی ہے نا کہ انسان محبت کو۔
آپ یقیناً میری باتوں سے اختلاف کر رہے ہوں گے، اور پتہ نہیں کون کون سی مثالیں آپ کے ذہن میں گردش کر رہی ہوں گی۔ مگر کیا ہم ان مثالوں کو محبت کی کسوٹی پر پرکھ پائیں گے؟ محبت چھوڑ دیتی ہے، محبت روند دیتی ہے، محبت جلا ڈالتی ہے، محبت مار دیتی ہے اور اسے کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کیا ہوا۔ محبت جلا بخشتی ہے۔ نم آنکھوں سے آغاز لینے والی محبت کی معراج بندگی ہے۔ ایک چُپ ہے جو تکتی رہتی ہے کہ کب دروازہ کھلے، کب دیدار ہو، کب وہ پوچھیں، کب وہ نام لیں، کب وہ خوش ہوجائیں، کب وہ مان جائیں اور کب وہ کہہ دیں کہ جا راضی ہوا۔
محبت کی ضد نفرت تھوڑا ہی ہے۔ نفرت تو ایک حیوانی جذبہ ہے۔ یہ حسد کی ماں ہے۔ انسانوں میں بھلا اِس کا کیا کام؟ محبت کی ضد تو آزادی ہے۔ محبت میں آدمی قید ہی تو ہوتا ہے۔ جو محبوب چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے، جہاں چاہے وہاں حاضری دینی ہی پڑتی ہے۔ نہ اپنی مرضی چلے نہ خواہش بلکہ اِن کا الٹ ہی کرنا پڑتا ہے۔ محبّت میں آنکھیں ترجمہ کرتی ہیں، معنی دل پہناتا ہے اور ذہن و گمان کی کسک کو وجود بخشتا ہے۔
محبت میں سب سے بڑا رقیب نفس ہے۔ یہ نہیں ملنے دیتا محبوب سے اور انسان نادانی میں اِس سے ہی محبت کر بیٹھتا ہے پھر جو چاہے آجائے جیت نفس کی ہی ہوتی ہے۔
ماں باپ محبت کرتے ہیں اپنی اولادوں سے۔
جی ٹھیک کہا آپ نے، کبھی کرتے ہوں گے یا شاید وقتی طور پر۔ ماں باپ آپ کے پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں۔ آپکو کھلاتے پلاتے ہیں۔ آپ کا نام رکھتے ہیں، اچھے بُرے میں خیال رکھتے ہیں۔ مگر جب آپ بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنے ہر اچھے کرم کا حساب چاہیئے ہوتا ہے۔ ایک گھر میں ایک ہی والدین کی چار اولادیں۔ جو پیسہ کمائے، وہ پیارا، اس کی بیوی بھی اور بچے بھی اور جو کسی قابل نہ ہو پائے اسکی عزت گھر کے نوکر سے بھی گئی۔ غصّہ آئے تو عاق کردیں، گھر سے نکال دیں۔ اور بھلا یہ کیسی محبت کہ دنیا بنانے کا سامان کردیا مگر اِسی اولاد کی آخرت کی کوئی فکر نہیں؟ کیا فرق رہ گیا بچے پالنے میں اور فیکڑی لگانے میں؟
جو کام بدلے کی نیت سے کیا جائے بھلا وہ بھی محبت میں شمار ہوسکتا ہے؟
حکمرانوں کو اپنی عوام سے محبت ہے۔ جی خوب کہا! جس ملک میں غریب کے بچے کچرے کے ڈھیر پر رزق کے لئے کتوں سے لڑیں وہاں پوری صداقت سے آپکی بات کا یقین ہو ہی جاتا ہے۔ جس ملک میں گناہ و ثواب، نیکی و بد، سزا و جزا کا گمان تک مرگیا ہو وہاں ایسے جملے بولنا تہذیب کی عصمت دری کے برابر ہیں۔
اجی چھوڑئیے یہ باتیں، بیوی آخر شوہر سے محبت کرتی ہی ہے اسی لئے تو اپنا میکہ چھوڑ کے چلی آتی ہے۔ جی بھائی، صحیح کہا آپ نے۔ سالوں کی رفاقتوں کے بعد ایک جملہ غلط نکل جائے، ایک دن بُرا گزر جائے، آمدنی کم ہو جائے، بیماری آجائے، توجہ کہیں اور لگ جائے۔ یہی بیوی کہتی ہے کہ میں نے آج تک سکھ کی کوئی گھڑی نہ دیکھی۔ بچے اٹھائے اور یہ جا وہ جا۔ اب شوہر بے چارہ مناتا پھرے۔ یہی حال خاوند حضرات کا ہے۔ حسن زائل ہوجائے، بیماری آجائے یا بات میں سختی ہوجائے تو وہ اِسے چھوڑ اوروں کی تمنا کریں۔ پا سکیں یا نہیں، تمنائیں تو روز مچلتی ہیں۔ تُف ہے ایسی محبت پر۔ محبوب کے سامنے کسی اور کا خیال بھی آجائے تو یہ محبت میں شرک ہے اور یہاں ایسے بھی کہ گھنٹوں محبوب کے سامنے کھڑے اور بیٹھے دلوں میں کسی اور کے خیال سجائے بیٹھے ہیں اور پھر دعویٰ محبت کا۔ واہ بھئی واہ۔ کیا معصومیت ہے۔
چلیں یہ تو مانیں گے کہ لڑکے کو لڑکی سے محبت ہوسکتی ہے یا یہ بھی نہیں۔ یہ بھی اچھی کہی۔ رات رات بھر کے نائٹ پیکجز، گھنٹوں باتیں، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں، زندگی نبھانے کے وعدے، مگر شادی ہوجائے تو؟ اب یہی نائٹ پیکجز، وعدے اور قسمیں کہیں اور؟ کیا آپکو یقین ہے کہ یہ محبت ہی تھی یا کوئی جسمانی طلب؟ آج کل کی محبتوں کا نشہ تو 6 ماہ میں ہی اُتر جاتا ہے۔
چلیں، آپ تو کوئی مولوی صاحب لگتے ہیں، اللہ کے لئے تو بندہ محبت کرتا ہی ہے۔ جی صحیح کہا آپ نے۔ لوگ پتہ نہیں بندوں سے اللہ کے لئے محبت کا دعوٰی کیسے کرلیتے ہیں مجھے تو آج تک اللہ سے اللہ کے لئے محبت نہ ہوسکی اور سونے پہ سہاگہ، بندوں سے اللہ کے لئے ناراض بھی ہوجاتے ہیں، قطع تعلق بھی کر لیتے ہیں۔ اگر اللہ نے کہہ دیا کہ جس سے تم تمام عمر میرے نام پر ناراض رہے اسے تو میں نے بخش دیا تھا تو پھر؟ مجھے لگتا ہے کہ محبت صرف یک طرفہ ہوتی ہے۔ دو طرفہ تو بزنس ہوتا ہے۔
اور جو بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے، اس کا کیا؟ جی، وہ تو اچھی بات ہے کرنی بھی چاہئیے۔ اللہ جلّ جلالہُ کا حق بنتا ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ محبت وہ خوشبو ہے جو چھپائے نہیں چھپتی۔ یہ آنکھوں، چہروں اور رویوں میں نظر آنے لگتی ہے۔ دلوں پر راج کرتی ہے، ذہنوں میں گونجتی ہے اور شخصیت کو نکھار دیتی ہے تو پھر وہ محبت جو ہم اللہ سے کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ آنکھوں میں کیوں نہیں چمکتی، نہ چہروں پر دمکتی ہے، نہ سانسوں میں دہکتی ہے، نہ دلوں پر راج کرتی ہے، نہ خوشبو پھیلاتی ہے، نہ شخصیت میں بہار لاتی ہے، نہ راتوں کو رُلاتی ہے، نہ لہجوں میں سلگتی ہے، نہ طبیعت میں مچلتی ہے، نہ نیندوں سے اٹھاتی ہے، نہ سوتوں کو جگاتی ہے، نہ ہی اعمال بدلتی ہے، نہ ہی سر چڑھ کے بولتی ہے، نہ ہی کہیں رکھ چھوڑتی ہے ، نہ ہی ہجرت کراتی ہے، نہ ہی آس دلاتی ہے، نہ ہی رب سے ملاتی ہے۔ ایسی خالی خولی بےاثر محبت کو بھلا کون محبت مانے؟
مجھے تو نظر نہیں آسکی آپ کی یہ محبت، اگر آپ کے پاس کوئی اور مثال یا ثبوت ہو تو پیش کریں۔
جہاں تک رہی اپنی بات، میں تو محبت کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہوں اس کی بارگاہ میں، جو تمنّا دیکھ کے مراد بر لاتا ہے۔ کیا پتہ کب اِس بہروپیئے کو اصل کردے۔
Balance Life
By: Zeeshan ul Hasan Usmani
بیلینس لائف
بیلنس لائف، یعنی کہ زندگی میں وقت کو صحیح طرح سے تقسیم کرکے گزارنا ایک مفید اور قابلِ عمل ضابطہ حیات ہے۔ آپ آفس کے وقت پر کام کریں، نماز کے وقت نماز پڑھیں، شام کو گھر پر بیوی بچوں کو وقت دیں، کچھ وقت عزیز رشتہ داروں کے لئے، کچھ پڑھنے پڑھانے کے لئے، کچھ دین سیکھنے کے لئے، کچھ اللہ کے ذکر کے لئے اور کچھ اپنے کسی آئیڈیے یا وژن کے لئے جسے آپ مستقبل میں پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ اگر اس طرح سے وقت تقسیم ہو سکے (اور اس کی بھرپور کوشش بھی کرنی چاہئے ) تو کیا کہنے۔
مگر ہمارے معاشرے میں یہ بہت مشکل کام ہے۔ اور ایسا نہ ہونے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ معاشرے میں زندہ رہنے کی بنیادی شرائط مفقود ہیں۔ جس معاشرے میں سکون ہو نہ انصاف، بجلی ہو نہ پانی، سچائی ہو نہ دیانتداری وہاں آئیڈیلز کے ساتھ جینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ آدمی بیلنس لائف کا تو وہاں سوچے جہاں ہر شخص اپنے حصے کا کام کر رہا ہوں۔ جہاں ایک ایک آدمی کو پورے پورے اداروں کا کام کرنا پڑے، پوری نسل کی آبیاری کرنی پڑے وہاں بیلنس لائف کا رونا رونا نہیں چاہئے۔ یہ راگ ٹریننگ ورکشاپس میں الاپنے تک تو ٹھیک ہیں مگر جو تھوڑے بہت لوگ کام کر رہے ہیں انہیں بیلنس لائف کے جال میں نہیں پھنسانا چاہئے۔ پِتّہ ماری کی محنت کرنی ہی پڑتی ہے۔ مہنگے خواب دیکھنے کے لئے آنکھیں بیچنی ہی پڑتی ہیں۔ جب تک رات کے اندھیروں کو دن کے اجالوں میں بدلنے کا فن نہ آئے۔ نصیب کی تاریکیاں دور نہیں ہوتیں۔
اگر آپ کسی بڑے منصوبے یا پلان پر کام کر رہے ہیں تو اس پر زندگی تباہ کرنی ہی پڑتی ہے، تب کہیں جا کے اُمید کی کوئی کِرن پھوٹتی ہے۔ چپ چاپ سر جُھکا کے کام کرتے رہیں۔ اور بیلنس لائف ان کے لئے چھوڑ دیں جنہیں نہ تو بیلنس کا مطلب آتا ہے نہ لائف کا۔
دوسری وجہ بیلنس لائف پر عملدرآمد نہ ہو سکنے کی ہر فیلڈ ، ہر شئے میں تکمیل (پرفیکشن) کا جنون ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ امتحانوں میں بھی سرفہرست رہے۔ بیت بازی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہ ہو، کرکٹ ایسی کھیلے کہ لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ زبان یوں بولے کہ لکھنؤ کی یاد تازہ ہو جائے اور دین پر ایسی گِرفت کہ اِمام غزالی ؒ کا گمان ہو۔ ہمارا بس چلتا تو بچہ فیکٹری سے آرڈر پر بنوا لیتے (ویسے یہ دن بھی دور نہیں ہے) اور اِس پہ فتنہ یہ کہ اب اِسی بچے کو تلوار بنا کر پڑوسیوں ، رشتہ داروں اور ملک کے باسیوں کی گردنیں اتارنے لگتے ہیں۔ کیا ہی کم ظرفی ہے کہ اُس چیز پر اِتراتے ہیں جو سرتاپا خُدا کی دین ہے اور اپنا کوئی کمال ہی نہیں ہے۔
دو سو سال سے برصغیر پاک و ہند میں اُمت اِس انتظار میں ہے کہ ایسا عالم آئے جو فزکس کا بھی بادشاہ ہو، وہ شیخ الحدیث آئیں جو پائلٹ بھی ہوں، ایسا اِمام مسجد ہو جو بہترین بزنس مین بھی ہو وغیرہ وغیرہ۔ اِسی دھماچوکڑی اور ذہن کے فتور میں نہ تو ہم بزنس مین اور پائلٹ بنا سکے اور نہ ہی شیخ الحدیث۔ جو شخص بخاری پڑھا لے وہ شیخ الحدیث اور جس نے نکڑ کی دکان کھول لی وہ بزنس مین۔ مغرب کے پاس پیسہ ہے دین نہیں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا ، خُدارا کوئی ایک فیلڈ کا اِنتخاب کریں اور زندگی لگا دیں۔ بعد میں آنے والے لوگ آپ کی بیلنس لائف کے گیت خود ہی گاتے رہیں گے۔
دنیا ہمت کی مرہون منّت ہے، حوصلہ کریں، ہمت باندھیں اور جو چاہیں وہ کر گزریں کون روکتا ہے۔ ہر شخص کا بیلنس (اعتدال) اپنا ہے۔ اونٹ کی ٹانگ کا بیلنس کچھ اور تو چوہے کی ٹانگ کا کچھ اور۔ درجن کا آد ھا چھ تو عشرے کا آدھا پانچ۔ ایک ہی معیار پہ سب کو جانچنے کا طریقہ کیا ہو؟
یہ لوگ اِمام غزالی ؒ کے پاس کیوں نہیں گئے بیلنس لائف کا رونا روتے ہوئے جب وہ 12 سال کے لئے قاضی القضات (چیف جسٹس) کا عہدہ چھوڑ کر تصّوف کی راہ پر چل پڑے۔ اور اِمام ابوحنیفہؒ سے کیوں نہیں کہا کہ حضرت رات کو سو جایا کریں، بیلنس لائف اور پوری نیند بڑی چیز ہے۔ فقہ کا کام کوئی اور کرلے گا۔ قائداعظم ؒ کو کیوں نہیں ٹوکا کہ آپ تن تنہا کیا کروڑوں مسلمانوں کے ذمہ دار ہیں؟ علامہ اقبال ؒ سے کیوں گلہ نہیں کیا کہ کیا اُردو فارسی میں آپ کے بعد کوئی شاعر نہ آئے گا؟ مدرٹریسا کو کیوں نہ بولا کہ کیوں زندگی جھگیوں میں بسر کرتی ہو، نیلسن منڈیلا سے کیوں نہ عرض کی کہ حضرت 27 سال سے جیل میں ہیں، چھوڑیں ضد کو اور بیلنس لائف گزاریں، اِسٹیو جابز کی مثال لائیں۔ بِل گیٹس کو دیکھیں۔ ہر وہ شخص جس نے کوئی بڑا کام کیا، مادام کیوری سے لے کر عبدالستار ایدھی تک، ان کی زندگیوں میں بیلنس لائف نہیں، جنون نظر آتا ہے۔
اب ایسے لوگوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا اور میرے جیسے نالائقوں کو چند کتابیں پڑھنے اور چند لائنیں لکھنے پر لوگ بیلنس لائف، بیوی بچوں سے محبت اور گھر گھرستی کا طعنہ دینے آ جاتے ہیں۔ آئیے ایسی لائف گزارتے ہیں کہ یہ پروفیشنل ٹرینرز اپنی ورکشاپس میں مثال کے طور پر پیش کر سکیں۔
آمین
Gunah
گناہ
پہلے پہل گناہ پُرلطف معلوم ہوتا ہے.. پھر وہ آسان ہو جاتا ہے.. پھر اُس سے مَسرت ہونے لگتی ہے.. پھر بار بار کیا
جاتا ہے اور پھر یہ عادت بن جاتی ہے..
تب راندہ درگاہ ہونے کے رستے ڈھلوان کی صورت کھلنے لگتے ہیں.. قدم بھر کی دُوری پر دائمی ہلاکتیں منتظر ہوتی ہیں.. تب آدمی گستاخ ہو جاتا ہے اور کبھی نہ پچھتانے کا فیصلہ کر لیتا ہے..
تب آسمانوں پر بھی ایک فیصلہ کیا جاتا ہے.. ایسے شخص کیلئے جہنمیوں والے اعمال آسان کر دیئے جاتے ہیں اور نیکی کی توفیق چھین لی جاتی ہے..
خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو اِس پُرخار وادی سے ' نفس کی بھُول بھلیوں سے خواہشات کے عذابوں سے واپسی کا راستہ تلاش کر پاتے ہیں.. اکثریت راستوں کی دھول ہو کر رہ جاتی ہے تب شیطان جشن مناتا ہے...!!
الله ہم سب کی واپسی آسان بنا دے... آمین..
Wednesday, January 13, 2016
I am Creative
"I am Creative. . . "
A creative person is motivated by the desire to achieve, not by the desire to beat others.
A creative person is motivated by the desire to achieve, not by the desire to beat others.
Care
قدر۔ ۔ ۔
"ﺍﮐﺜﺮ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﺫﺧﯿﺮﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺟﻨﮑﯽ ﺑﮩﺖ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔"
Forgiveness
معافی۔ ۔ ۔
"کسی سے معافی مانگنا آسان ہے لیکن کسی کو معاف کرنا بہت مشکل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ رحیم کی ہی صفت ہے کہ وہ اتنی جلدی معاف فرما دیتے ہیں"
"کسی سے معافی مانگنا آسان ہے لیکن کسی کو معاف کرنا بہت مشکل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ رحیم کی ہی صفت ہے کہ وہ اتنی جلدی معاف فرما دیتے ہیں"
I loved by those people. . .
یہ کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟ :/unsure emoticon
"میں اُن لوگوں میں پسند کیا جاتا ہوں جو اوروں کو پسند نہیں کرتے اور اُن لوگوں میں بھی، جو لوگوں میں پسند کئے جاتے ہیں، لیکن اُن لوگوں میں نہیں، جو لوگ، اُن لوگوں کو پسند کرتے ہیں"
"میں اُن لوگوں میں پسند کیا جاتا ہوں جو اوروں کو پسند نہیں کرتے اور اُن لوگوں میں بھی، جو لوگوں میں پسند کئے جاتے ہیں، لیکن اُن لوگوں میں نہیں، جو لوگ، اُن لوگوں کو پسند کرتے ہیں"
Monday, January 11, 2016
Ability to be nice
It is not necessary to be "Nice" all the time....
"The people who have changed and who are changing the world, are not always popular or loved by all.They are not always nice. They challenge things. They go against the grain."
"The people who have changed and who are changing the world, are not always popular or loved by all.They are not always nice. They challenge things. They go against the grain."
Subscribe to:
Posts (Atom)